یہ کیا ہے ستم ٗ لُوٹا ہے میرے پیار کو
نام دیا ہے آوارگی کا میرے انتظار کو
دئیے ہیں آنسو غم کے ٗ توڑا ہے دل
لگائی ہے ٹھیس گہری میرے اعتبار کو
کون لگائے گا مجھے پار اب آ کے
کرے گا کون آسان رستۂ دشوار کو
میں تو مجبور ہوں وفا کے ہاتھوں
کوئی بتا دے جا کے میرے دلدار کو
مجال کیا کہ انتقامِ غم کی سوچوں
اِس طرز سے چاہا میں نے یار کو
نہ آئے اب کے سال میرے گلشن میں
کوئی سندیسۂ الم دے میرا بہار کو
بے چینیوں میں گزریں گے دن و رات
نہ قرار ملے گا کبھی دل بے قرار کو
کہ سہنی پڑیں گی ذلّتیں اب عشق کی
نام ملیں گے طرح طرح کے میری ہار کو