یہ گریباں یوں ہی نہیں پھٹے ہیں تیری محفل میں ایسے ہی نہیں ڈٹے ہیں کناروں میں دم ہے غم اٹھانے کا سینے پرگھاؤ ایسے ہی نہیں پڑے ہیں شاہوں کے مقابل کل کے فقیر ہو گئے قدرت خدا کی دیکھیے وہ شہر امیر ہوگئے