یہ گولیاں کیوں چلائی جاتی ہیں
یہ کتنا شور مچاتی ہیں۔۔۔صفِ ماتم بچھاتی ہیں
ہنستے بستے انگن اجاڑ دیتی ہیں
کوئی دشمن نہیں ان کا۔۔۔نہ کوئی دوست ہوتا ہے
کوئی بتائے ان آگ اگلتی مشین گنوں کو
تم میں سے جوعجب آگ نکلتی ہے
یہ گل زندگی کا چراغ کردیتی ہے
یہ آگ احساس سے عاری ہوتی ہے
جو نہ تیری ہوتی ہے۔۔۔ نہ میری ہوتی ہے
بچھڑجاتا ہے جب کوئی
کتنا کہرام مچتا ہے۔۔۔ کوئی زارو قطار روتا ہے
معصوم بچوں کہ سر سے سایہ چھین لیتی ہے
پھر دنیا انہیں یتیم کہتی ہے
ماں کا لختِ جگر دفن ہوجاتاہے
وہ ہنستی کھیلتی پاگل سی دکھتی ہے
سفید لبادے میں ملبوس جو رہتی ہے
وہ بیوہ کہلاتی ہے
ساتھ جینے مرنے کہ وعدے
جب اس بیوہ کو یاد آتے ہیں
کسی کو کیا معلوم کتنے نشتر چلاتے ہیں
سب ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔سب روٹھ جاتاہے
سب قصے پرانے ہوجاتے ہیں
مگر ایک سوال ہے جو سب اٹھاتے ہیں
یہ گولیاں کیوں چلائی جاتی ہیں
یہ کتنا شور مچاتی ہیں۔۔۔صفِ ماتم بچھاتی ہیں