یہ ہجر کی راتیں عذاب لگتی ہیں
تیری یادیں اک خواب لگتی ہیں
بجھتی بھی نہیں اور تڑپتی رہتی ہیں
تیرے انتظار کی شمیں بے تاب لگتی ہیں
اب یہ خوشیاں بھی روٹھ کر مجھ سے
درد بھرے کانٹوں پہ گلاب لگتی ہیں
مے پینے کی اب مجھے چاہ نہیں
یہ تیری آنکھیں شراب لگتی ہیں
دل کے آنگن میں ہر سو تاریکی ہے
تمام صبحیں اڑھے حجاب لگتی ہیں
بے وفائی کی یہ جو کہانیاں ہیں
میرے سب سولوں کے جواب لگتی ہیں