خون ریزی ہے، اشکباری ہے
خوابِ دیدہ میں بے قراری ہے
ہجر ٹہرا ہوا ہے برسوں سے
شدتِ کُرب اب بھی تاری ہے
خلوتِ زیست سے رُوبَرو ہو کر
وصل لمحوں پر بحث جاری ہے
چند تحفے اِک گلاب اور خط
یہ رفاقت بھی کتنی پیاری ہے
آج بھی وہ ذھن نشیں ہے مرے
ریت پر اُسکی شبی اُتاری ہے
دل کو کیسے یقین دلاؤں حسینؔ
اب وہ میری نہیں, تمہاری ہے