صبح دہلیز پہ پہنچی تو درونِ خانہ
طاق پہ رکھے چراغوں کو ہوا اندیشہ
”یہ بلا ہم کو کھڑے قد سے نگل جائے گی
جب مکینوں پہ کُھلا روشنی کیا ہوتی ہے
حیثیت اپنی بس اک پَل میں بدل جائے گی
جب یہ گھر اُجلے سویرے سے منوّر ہوگا
ضَوفشاں لَو یہ کسی سائے میں ڈھل جائے گی“
پھریہ طے پایا چراغوں میں کہ شب بہتر ہے
”روشنی صبح کی اپنے لیے کب بہتر ہے
اپنے ہونے کا رہے باقی سبب، بہتر ہے“