بارشوں کو کیا معلوم
اس طرح برسنے سے
دل پہ کیا گزرتی ہے
یاد کے کئی چہرے
جھانکتے ہیں ماضی کے
ادھ کُھلے دریچے سے
بارشوں کو کیا معلوم
اس طرح کے موسم سے
سوچ کے درختوں پر
پھر بہار آتی ہے
منظروں کے جادو سے
لفظ جُڑنے لگتے ہیں
جن کو روز مرہ کے
فالتو سے کاموں میں
ہم بُھلائے بیٹھے ہوں
یاد آنے لگتے ہیں
بارشوں کو کیا معلوم
اس طرح برسنے سے
دل پہ کیا گزرتی ہے