الجھ کر خود کو سلجھا رہے ہیں آج کل
ہم رفتہ رفتہ اسے بھلا رہے آج کل
خاموشیوں سے اس نے بنا رکھی دوستی
یعنی کہ ہمیں خوب آزما رہے ہیں آج کل
بگڑے ہوۓ ہیں تعلق کچھ اپنے ان دنوں
نہ پوچھ کیسے خود سے نبھا رہے آج کل
بخشی تھی ہم نے جن چراغوں کو روشنی
میری ہی لو کو وہ بجھا رہے ہیں آج کل
وہ تیرے نام لکھی اپنی ہر اک غزل
معنی بدل بدل کے سنا رہے ہیں آج کل
نظر بچا رہے ہیں کچھ وفاؤں سے ہم بھی
تمہاری طرح خود کو بنا رہے ہیں آج کل
کبھی جو لکھی تھی بڑے شوق سے تحریر عنبر
شکستہ دلی سے اس کو مٹا رہے ہیں آج کل