ہم سفر تھے
اور نہ اک منزل تھی اُن کی
ہم قدم کچھ دیر کو، کچھ دور کو بس ہوگئے تھے
بھول کر وہ اپنے اپنے راستے کو
خودفراموشی کی اُڑتی دھول میں ایسے اَٹے کے کھوگئے تھے
دھول جب بیٹھی تو دوراہے کا منظر سامنے تھا
اور مقدر سامنے تھا
موڑ دونوں مُڑ گئے گئے تھے
اور پھر کچھ دور جاکر
زندگی بھر
اپنے اپنے نقش پاکو
اور دوراہے کی جانب
دیکھتے تکتے رہے تھے