اے بارش!
گرد میں لپٹے ہوئے منظر ہیں سارے
صاف کردے
ہے آئینوں پہ مٹی
کردے اُجلا
بھٹکتے لوگ رستہ ڈھونڈتے ہیں
نئی راہیں نئے رستے بنادے
اندھیرے میں گھرے ہیں جانے کب سے
چمکتے بادلوں کی روشنی دے
انھیں منزل سے ان کی آشنا کر
یہ صحرا
دور تک ویران صحرا
یہاں پر پھول اور سبزہ بچھادے
برس ایسے جنوں سے پتھروں پر
انھیں پانی بنادے اور بہادے
اے بارش! ورنہ تو برسے نہ برسے
ترستے رہ گئے جو کب کے ترسے
اے بارش!