اے مری جاں تجھے مضطر نہیں دیکھا جاتا
تیری آنکھوں میں یہ ساگر نہیں دیکھا جاتا
پیار احساس ہے اک،اس کے سوا کچھ بھی نہیں
اور احساس کو چھو کر نہیں دیکھا جاتا
بے بسی جس میں نمایاں ہو کسی انساں کی
مجھ سے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا جاتا
بے مکانی کا ہے غم کیا،کوئی پوچھے مجھ سے
اپنے دشمن کو بھی بے گھر نہین دیکھا جاتا
ہم بھلے کیسی ہی اولاد رہے ہوں ،لیکن
اپنی اولاد کو خودسر نہیں دیکھا جاتا
آوَ مل جل کے کوئی خواب ہی بو لیں اس میں
اپنی آنکھوں کو یوں بنجر نہیں دیکھا جاتا
سامنے تیرے نظر میری جھکی جاتی ہے
تیری آنکھوں میں اے دلبر نہیں دیکھا جاتا
لوگ خود رہتے ہوں جو شیشے کے گھر میں عذراؔ
( دیا جیم آن لائن فی البدیہہ آن لائن مشاعرے میں
کہی گئی میری تازہ غزل )