دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
سامنے کے نُکّڑ پر
نَل دکھائی دیتا ہے
سخت کیوں ہے یہ پانی
کیوں گلے میں پھنستا ہے
میرے پیٹ میں جیسے
گھونسہ ایک لگتا ہے
آ رہا ہے چکّر سا
جسم پر پسینہ ہے
اب سَکت نہیں باقی
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
ہر طرف اَندھیرا ہے
گھاٹ پر اکیلا ہوں
سیڑھیاں ہیں پتّھر کی
سیڑھیوں پر لیٹا ہوں
اب میں اُٹھ نہیں سکتا
آسماں کو تکتا ہوں
آسماں کی تھالی میں
چاند ایک روٹی ہے
جُھک رہی ہیں اب پَلکیں
ڈوبتا ہے یہ منظر
ہے زمین گردش میں
میرے گھر میں چُولھا تھا
روز کھانا پَکتا ھتا
روٹیاں سُنہری ہیں
گرم گرم یہ کھانا
کُھل نہیں رہی آنکھیں
کیا میں مرنے والا ہوں
ماں عجیب تھی میری
روز اپنے ہاتھوں سے
مجھ کو وہ کِھلاتی تھی
کون سرد ہاتھوں سے
چُھو رہا ہے چہرے کو
اک نِوالا ہاتھی کا
ایک نوالا گھوڑے کا
اک نوالا بھالُو کا
موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی ہے غنیمت ہے
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے