(شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر خصوصی نظم )
اکِ زمانہ ، جب آمر کے ہاتھوں چا ند ، ستارا تھا
بھٹو نے للکارا تھا ، بس بھٹو نے للکارا تھا
سورج تو سورج ہے ، غروب اسکی تقدیر نہیں
تھک کر راہ میں رک جائے ، وہ ایسا راہگیر نہیں
کاٹے عزم مصمم کو ، ایسی کوئی شمشیر نہیں
خواب و تصور باندھ رکھے ، ایسی کوئی زنجیر نہیں
خود آگے بڑھ کر ، رہبر نے سبکو ساتھ پکارا تھا
بھٹو نے للکارا تھا ، بس بھٹو نے للکارا تھا
عصر ِ آمر اول کبھی مثبت ، کبھی منفی تھا ٹھرا
مگر عشق ِ جہد میں ، بھٹو کا اپنا ارادہ تھا گہرا
حق و باطل کے مابین انکی نظر کا پختہ تھا پہرا
نعرا لگایا کھل کر ، جب آیا موسم تھا کہرا
چڑھتے ہوئے سورج کے آگے جہد کا ایک ہی تارا تھا
بھٹو نے للکارا تھا ، بس بھٹو نے للکارا تھا
آمر تو بہتا پانی ہے ، جامد پانی ہے جمہور
گھر واپس ہوجانے کو کر دیا جنتا نے مجبور
ذو الفقار ہاتھوں میں تھامے دوڑ پڑے کسان و مزدور
ہر سو رونق و خوشحالی ، ہٹ گئے بادل دھند کے دور
نیک نیت و سچی لگن سے اپنے رب کو پکارا تھا
بھٹو نے للکار تھا ، بس بھٹو نے للکارا تھا
مغرب یا مشرق کے دشمن ہوں ، سب کے دلوں میں دپشت تھی
اُس کے تلوار میں حیدری سی گُن تھی ، سب کے دلوں میں دہشت تھی
چند لفظوں سے جلا دے تن من ، سب کے دلوں میں دہشت تھی
مڑور نہ دے ظالموں کو گن گن ، سب کے دلوں میں دہشت تھی
اس اکیلے شیر کے بچے نے ظلمت کو پھٹکارا تھا
بحٹو نے للکارا تھا ، بس بھٹو نے للکارا تھا
‘‘ یکتائی ِ مسلم اہم ہے “ سوچا ، کرنے لگے اسکی تدبیر
مغرب نے دیکھا ، بدلے گی اب اہل ِ اسلام کی تقدیر
انگی حسد کی آنکھوں میں جب چمکی حیدر کی شمشیر
سازش کرنے لگے سازشی ، بنالی بندھن کو انکی زنجیر
گھر کا بھیدی لنکا ڈھایا ، مغرب کا ہی اشارہ تھا
بھٹو نے للکارا تھا ، بس بھٹو نے للکارا تھا
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی ٤ اپریل کو برسی کے موقع پر ایک شاعر کا خراج عقیدت -
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور جیالے کے نام برسی پر کراچی شہر سے
“ ہماری ویب سائٹ “ کے تعاون سے سنہرے الفاظ کا تحفہ پیش خدمت ہے-
نوٹ:- یہ نظم صدر مملکت پاکستان ، جناب آصف علی ذرداری کو پیش کی جاچکی ہے-
جس پر ایوان صدر سے شکریہ کا ایک تہنیتی خط بھی موصول ہو چکا ہے-