جھانک کر اپنا گریباں دیکھتا کوئی نہیں
کیا سہی ہے کیا غلط یہ سوچتا کوئی نہیں
بے وجہ قسمت کو اپنی کوستے رہتے ہیں لوگ
ہے سزا یہ کس خطا کی سوچتا کوئی نہیں
دوسروں کی خامیاں سب ڈھونتے رہتے ہیں کیوں
کیا کمی ہے خود کے اندر ڈھونڈتا کوئی نہیں
یہ تو سب نے کہہ دیا کے جو ہوا اچھا ہوا
کیا ہوا؟ کیسے ہوا ؟ یہ پوچھتا کوئی نہیں
ہر کوئی بیٹھا ہوا ہے اپنی اپنی تاک میں
آج کل دنیا میں لوگوں آٸنہ کوئی نہیں
اس زمانے میں ہو کوٸی بادشاہ یا کے فقیر
سچ ہے یہ غلطی کی اپنی مانتا کوئی نہیں
بات ہو جھوٹی اگر تو بولتے ہیں سیکڑوں
بات ہو سچی اگر تو بولتا کوئی نہیں
موت آنی ہے یقیناً جانتے ہیں سب مگر
پھر بھی صد افسوس آنکھیں کھولتا کوئی نہیں
ہم سے جب پوچھا گیا مجرم تمہارا کون ہے
بے جھجک منصف سے ہم نے کہہ دیا کوئی نہیں
زندگی کو اپنے ہاتھوں سے کیا ہم نے تباہ
ہم ہی دشمن ہیں خود اپنے دوسرا کوئی نہیں
بے وفاٸی کا میاں الزام تم دوگے کسے؟
سب یہاں پر با وفا ہیں بے وفا کوئی نہیں
لے کے آئی زندگی کس موڑ پر وشمہ ہمیں
بچ نکلنے کا جہاں سے راستہ کوئی نہیں