مری وفاؤں کا اچھا صلہ دیا مجھ کو
بس ایک پل میں نظر سے گرا دیا مجھ کو
ہے احترام بھی دل میں مرے ، محبت بھی
پھر اپنے در سے بتا کیوں اٹھا دیا مجھ کو
یہ میری سادہ دلی تھی کہ پیار کر بیٹھا
کیوں اپنی ذات کا عادی بنا دیا مجھ کو
مری تو زیست میں پہلے ہی بے شمار ہیں غم
اب اپنے غم کی بھی سولی چڑھا دیا مجھ کو
یہ سوچتا ہوں کہ تجھ کو نہ بھول پاؤں گا
اگرچہ تو نے تو دل سے بھلا دیا مجھ کو
بتا دے جاؤں کہاں تیری بے رخی پا کر
کیوں زہر ہجر کا تو نے پلا دیا مجھ کو
مری طرح سے نہ تجھ کو کوئی بھی چاہے گا
کبھی یہ سوچے گی تو کیوں گنوا دیا مجھ کو
تری وفا کا بھرم کاش کھل نہ پاتا کبھی
حسین خوابوں سے آخر جگا دیا مجھ کو