کسی سے دل لگی میں ہی محبت ہم بھی کر بیٹھے
محبت تو محبت تھی سکوں برباد کر بیٹھے
سزا اتنی کڑی کیوں ہے خطا تو صرف اتنی تھی
نظر اُس نے اٹھائی تو ملا ہم بھی نظربیٹھے
اندھیرے میں بھی جیتے تھے مگر نہ جانے ہم کیوں کر
ضِیاء پانے کی خواہش میں جلا اپنا ہی گھر بیٹھے
کبھی دنیا کی الجھن سے چھڑا دامن اکیلے میں
چھما چھم برسے نَینوں سے کفوں کو کر کے تر بیٹھے
اسے مرضِ محبت ہے کہا آ کر طبیبوں نے
میری حالت جو دیکھی تو پکڑ کر اپنا سر بیٹھے
کبھی ناکام الفت نہ کرے کوئی عمرؔ ورنہ
وہ اپنے آپ دامن میں یقیناََ آ گ بھر بیٹھے