یہ ہے رشتوں کا بازار
یہاں ہر اک ہے خریدار
ہر شخص خود تو ہے عزت کا طلبگار
پر زات اپنی میں ہےنفرت سے مالامال
بولی لگتی ہے روز یہاں
عزت،محبت، اعتبار ،اعتماد
سب کے ہیں بہت ہی سستے دام
میں کهڑی حیران
دیکھے ہوں یہ اندها بیوپار
لب سی رکھے ہیں میں نے
کہ سچ کا نہیں ہے کوئی خریدار
پاوں چهلنی؛روح فگار
سر پر ہے ناکردہ گناہوں کا انبار
چلی جارہی ہوں اس خیال میں
کبھی تو صبح نوید ہوگی
کبھی تو مان،محبت، اعتبار کا سورج طلوع ہوگ
چمکا دے گا رشتوں کا بازار
اس دن نہ ہوگا کوئی خالی ہاتھ
یہ ہے رشتوں کا بازار