دنیا میں کب نکلتی ہے بے التجا گیا
رکھتا نہیں ہے ہم سے جو وہ بے وفا گیا
مطلب نہ ظلم سے ہے نہ تیرے ستم سے کام
ان کو وفا سے اپنی ہے اے پر جفا گیا
نا حق بناوں اپنے لیے اور مدعی
کیا جاؤں میں وہاں مجھے کچھ مدعا گیا
کوئی برا کہے ہمیں یا عشق میں بھلا
ہم کو برے بھلے سے نہیں نا صحا گیا
دل جانتا ہے جیسے یہ صاحب ہے سنگدل
تو ہم بھی بے غرض ہیں ہمیں اس سے کیا گیا
مطلب نسیم سے ہے نہ تجھ سے صبا غرض
مہرووفا کے ڈھنگ میں ظلم و جفا گیا
ہر آشنا سے ایسا ہے اب آشنا کا طور
دو دن میں جیسے بگڑے ہے رنگِ حنا گیا
یارب میں درد کھا کے سراپا تمام رات
جلتی ہوں مثلِ سردچراغاں کیا گیا
اے وشمہ خان تیری محبت کی خیر ہو
چاہت سے تھا نہ دل تو کبھی آشنا گیا