ہر زخم مسکراتا رہا میرے حال پر
لیکن تھی زیست رقص کناں اپنے تال پر
ابلیس سے ہر آن عداوت ہے اس لیے
قبضہ خدا کا ہے مرے مکر و خیال پر
شاہکار کردگار ہے انسان خلق میں
جس کی نظر ہے وسعت اوج و زوال پر
موجوں کے خلفشار پہ گہری نگہ رکھ
کشتی چلے گی بہر مئں تب اعتدال پر
دشت جہاں میں ہم نے عزئزوں کے بار ھا
طعنوں کے تیر روک لیے دل کے ڈھال پر
بازار حسں و عشق میں تب تک ہو قیمتی
جب تک رہے گا حسں تمھارا کمال پر