کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں
یہ جو سرخ جزیرے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر
یہ جو غم کے دھارے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن
جتنے منظر نامے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ایک وصیت میں نے اُس کے نام لکھی
یہ جو پیار کے ناتے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کون یہاں اِس راز کا پردہ چاک کرے
جتنے خون کے رشتے ہیں ‘ سب خونی ہیں