میں کَلم سے ہوں اور مجھ سے کَلم کا ہونا
بستر پہ تنہا لیٹ کر تاریکیوں میں رونا
سوچنا کہ کیسے گزرے گی میری رات اکیلے
اور اِسی گمان میں پوری رات کا گزرنا
پلکوں کو ڈھانپنا بس مختصر سی دیر
پھر جاگنا، پھر سوچنا، پھر جاگنا، پھر سوچنا
کھڑکی سے دیکھنا اُفق پہ گہرے آفتاب کو
اور حُسن پہ داغوں کا دَوا نکھارنا
کروٹیں بدلنا یوں سوزِ اشتیاق میں
خود کو خد کی پیشتر غلطیاں سنانا
ڈھلنا امیر کو دنیا کی وسعتوں میں
جیسے فرار مُجرم کو سرِ راہ پکارنا