سکوت ء ذات میں اتر جائیں گے کسی روز
زندگی تجھ سے بھی گزر جائیں گے کسی روز
تو جو آج گریزاں ہے میری قذبت سے
تیری دست ء دعا میں ٹھہر جائیں گے کسی روز
اداسی کا سبب اپنی بتائیں گے تمہیں بھی
ہر ضبط نظر تیری کر جائیں گے کسی روز
ابھی سرگرداں ء وفا ہیں اک بے نام سفر میں
تھک جائیں گے تو گھر جائیں گے کسی روز
وحشتیں کتنی جانے ہم میں بسی ہیں
دیکھ کے خود بھی ڈر جائیں گے کسی روز
ابھی نہ بچھڑنے کا پیما کرو تم
دیکھیں گے سنبھل کے کدھر جائیں گے کسی روز
ہم جو ضبط میں رکھتے تھے کمال کبھی
لگتا ہے کہ اب بکھر جائیں گے کسی روز
وہ جو حساس بہت ہیں نازک دل عنبر
بکھر کے خود ہی مر جائیں گے کسی روز