شب غم ہے مگر چاند کا ہالا نہیں جاتا
جو ذہن میں بس جائے نکالا نہیں جاتا
وہ جائے تو کچھ دیر میں جل جاتی ہیں آنکھیں
اس دل سے محبت کا اجالا نہیں جاتا
چھپ کر ہی وہ رہتا ہے کسی روپ میں رہ لے
دانستہ کوئی سانپ تو پالا نہیں جاتا
بہہ جائے نہ قرطاس پہ آنکھوں کا سمندر
جزبات کو یوں شعروں میں ڈھالا نہیں جاتا
بیتی ہے مری عمر ترا نام سجاتے
اب بھی یہ مرا شوق نرالا نہیں جاتا
اک روز میں نکلی تھی خفا یار منانے
اس روز سے پاؤں کا یہ چھالا نہیں جاتا
جس شخص نے آنکھؤں پہ بٹھایا مجھے وشمہ
اس کی تو محبت کا حوالہ نہیں جاتا