جب معاشرے میں برائیاں عام ہوتی ہیں
تو بیٹیاں اسی طرح رسوا سرِ عام ہوتی ہیں
بنت حوا کی زندگیاں بے بسی کے نام ہوتی ہیں
اسی طرح انکی زندگی کی شام ہوتی ہیں
ان خون آشام بھیڑیوں سے ھم انہیں کیسے بچائیں گے
جب ہمارے محافظ انکے ہاتھوں بک جائیں گے
کیوں کسی نے ان معصوموں کی چیخیں سنی نہ آہیں
یہ تو ایسا ظلم ہے کہ پہاڑ بھی حل جائیں
کتنا شور کرو گے پھر تم چپ ہوجاؤ گے
دبا کے ان معصوموں کو مٹی میں تم پھر سوجاؤ گے
ظلم درندوں کا ھے تو تمھارا بھی قصور ھے
خود اپنے ہاتھوں سے کیا تم نے انکو دور ھے
کیوں ان معصوموں کو اکیلا باہر بھیجتے ہو
اپنے ہاتھوں سے درندوں کے ہاتھ میں دیتے ہو
اگر نہ کی تم نے اپنے معاشرے سے دور برائی
تو اسی طرح ہوتی رھے گی معصوم بیٹیوں کی رسوائی
آج بنت حوا ہر طرف دیتی ہے یہ دھائی
کب ہو گی ہمارے اوپر کیئے گئے ظلموں کی سنوائی