عورت ذات ہو، تم تو چلا بھی سکتی ہو
آنسوؤں سے پتھروں کو پگھلا بھی سکتی ہو
تم تو رو بھی سکتی ہو، دکھوں کو دھو بھی سکتی ہو
میں تو مرد ہوں جاناں، مجھے رونا نہیں آتا
دکھ دھونا نہیں آتا
جب کوئی مرد روتا ہے تو زمانہ ہنستا ہے
ارے یہ مرد کیسا ہے؟ مرد ہو کے روتا ہے؟
یہ کیسے بلبلاتا ہے؟ اسے رونا بھی نہیں آتا؟
دکھ دھونا نہیں آتا
ہمیں پگھلنا بھی آتا ہے، بکھر جانا بھی آتا ہے
پروانے کی مانند ہم جو جل جانا بھی آتا ہے
ہمیں تڑپنا آتا ہے اور مرجانا بھی آتا ہے
ہمیں سسکنا تو آتا ہے، مگر رونا نہیں آتا
دکھ دھونا نہیں آتا
بھلے تم چیر کے رکھ دو تب بھی رو نہیں سکتے
موتی آنسوؤں کے ہم کبھی بھی کھو نہیں سکتے
نشانی یار کی ہیں یہ، زمیں پر بو نہیں سکتے
دکھوں کو دھو نہیں سکتے
بھلے مرنا پڑے ہم کو، ضبط کو قائم رکھتے ہیں
رونق اپنے چہرے پر بظاہر دائم رکھتے ہیں
ہم تو مرد ہیں جاناں، ہمیں رونا نہیں آتا
دکھ دھونا نہیں آتا