محبت اک کھلونا تھا جسے وہ توڑ دیتی تھی
گلے لگ کے وہ روتی تھی ، پھر تنہا چھوڑ دیتی تھی
محبت تھی مجھے اس سے اسے بھی تو تھی شاید
پکڑ کر ہاتھ میرا وہ سر راہ چھوڑ دیتی تھی
بچپن سے وہ میری تھی فقط میرا یقین یہ تھا
میری ہر بات کو وہ بس ہنسی سے ٹال دیتی تھی
اسے میں اچھا لگتا تھا یا میری سوچ تھی ایسی
فقط تم دوست ہو میرے یہ اکثر بول دیتی تھی
کھلونا تھا یقینن میں اس کے ہاتھ کا ایسا
ہتھیلی میں ہی جس کو وہ مثل کر توڑ دیتی تھی
گرتے ہی نہیں تھے پھر میرے جذبات کے ٹکڑے
صندل کر کے اشکوں کو وہ میرے رول دیتی تھی
میری آنکھوں میں لکھی تھی محبت کی کہانی جو
ادھوری پڑھ کر اکثروہ وہیں پھر چھوڑ دیتی تھی