د ل تو چاہتا ہے کہ دل میں بسا لُوں تم کو
کبھی آؤ تم تو پاس بٹھا لُوں تم کو
جی بھر کے دیکھوں آنکھوں میں سجا لُوں تم کو
کچھ وعدے میں کروں اور کروا لُوں تم سے
تم میرے ہو کسی کاغذ پے لکھوا لُوں تم سے
مگر پھر سوچتی ہوں کہ تمہارا کیا ہے
ہزار وعد وں سے پھر ہونہی مُکر جاؤ گے
ہزار وعد وں سے پھر ہونہی مُکر جاؤ گے
ہر رشتہ سے بڑھ کر تمہیں اپنا ما نا
خود غرض د نیا سے منفرد جا نا
پھر تم نے ایسا کیوں کیا؟
لے کے مجبو ریوں کا نام چلے گۓ نا
لے کے مجبو ریوں کا نام چلے گۓ نا
کاش تمہیں کوئی مجبوری پہلے رہی ہوتی
نہ کوئی چاہت میرے دل میں بسی ہوتی
نہ کبھی پھول کھلتے نہ آج خزاں ہوتا
کاش مجھ کو تیرے ہونے کا کبھی نہ گماں ہوتا
کاش مجھ کو تیرے ہونے کا کبھی نہ گماں ہوتا
سنو؟ تیری گزشتہ باتوں کو میں یاد کرتی ہوں
اور موجودہ لفظوں کو جب سامنے رکھتی ہوں
تو یہ سوچ کر سُلگتی رہتی ہوں
کہ ادائیں بد لنا تو تم کو خوب آتا ہے
فراموش کرنا تو تم کو خوب آتا ہے
کر کے محبت دیکھو میں سزا پا رہی ہوں
دل ہے مردہ مگر جیے جا رہی ہوں
گلہ بھی کیا کسی سے جب خطا ہے اپنی
تیری فرصت کی دل لگی کو میں محبت سمجھی
تیری فرصت کی دل لگی کو میں محبت سمجھی
سنو؟ اب اندھیرے راس آگۓ ہیں مجھ کو
کوئی امید کوئی شمع نہیں لانا
چھوڑ جو گئے ہو تنہا بھٹکنے کو
تو اب واپس پلٹ کر نہیں آنا
کوئی کام اب مجھ کو بھی کرنے دو
میں بکھر رہی ہوں بکھرنے دو
میں مر رہی ہوں اب مرنے دو
میں مر رہی ہوں اب مرنے دو