بہت لڑتی ہوں خود سے
مگر میں ہار جاتی ہوں
تجھے اور نہ چاہوں گئی
ہر بارخود سے وعدہ کرتی بوں
مگر میں ہار جاتی ہوں
نہیں کروں گئی تیرا اور انتظار
مگر میں ہار جاتی ہوں
سکون دل کی خاطر
رہتی ہوں مصروف
مگر تیری یاد آتے ہی
میں ہار جاتی ہوں
میں خوش رہنے کی
کوشش کرتی ہوں
مگر میں ہار جاتی ہوں
میں اپنا درد چھپاتی ہوں
مگر میں ہار جاتی ہوں
میں بہت ہمت کرتی ہوں
مگر میں ہار جاتی ہوں
میں سارا دن اشک نہیں
بہاتی مگر رات کے پچھلے پہر
میں ہار جاتی ہوں
میں اب گلابوں کو نہیں دیکھتی
مگر کتاب میں پڑا اک مرجھایا
گلاب دیکھ کر میں ہار جاتی ہوں
آسمان کو دیکھنا تو چھوڑ ہی
دیا میں نے مگر جب ہوا چھو کر
گزرے تو میں ہار جاتی ہوں
جاتے ہو ؟ اب میں گانے نہیں سنتی
مگر اکثر تیرے گنگنانے کی یاد
آ جائے تو میں ہار جاتی ہوں
وہ جو اک گفٹ لیا تھا بڑے پیار سے
تمہارے لیے اب الماری میں پڑا
نظر آ جائے تو میں ہار جاتی ہوں
میں اب گھڑی نہیں دیکھتی
اگر اچانک سے نظر پڑھ جائے
تو تیرے آنے کا وقت یاد آتے
ہی میں ہار جاتی ہوں
میں اب کسی سے زیادہ بات
نہیں کرتی کیونکہ تیرا ذکر
سنتے ہی میں ہار جاتی ہوں
تیرے نام کے وہ پانچ لفظ
کہیں دیکھائی دے جائے تو
میں ہار جاتی ہوں
جاتے ہو ؟ اب میں اپنا
نام نہیں لکھتی کیوں کہ
اپنا ادھورا نام دیکھ کر
میں ہار جاتی ہوں
کبھی یوں ہاتھوں پے نظر
جایئں تو تیرا احساس ہوتا ہیں
تو میں ہار جاتی ہوں
میں اب اندھرے میں رہتی ہوں
اگر ُاجالے مین جاؤں تو
میں ہار جاتی ہوں
اب تو کتنے دن گزر گئے
تمہیں دیکھے تم سے بات کیے
میں ہر شام کے ڈوبتے سورج
کے ساتھ ہار جاتی ہوں
وہ ریت کے چھوٹے چھوٹے گھر
جو بنایے تھے دریا کنارے
جنہیں میں محل کہا کرتی تھی
ُانہیں اب یوں ہی بکھرا
دیکھ کر میں یار جاتی ہوں
میں اب کسی کو پیار میں
دیکھتی ہوں اک آگ کے دریا میں
دیکھتی ہوں تو میں ہار جاتی ہوں
کیا محبت اسی کو کہتے ہیں
جو تم نے کیا جب سوچتی ہوں
تو میں ہار جاتی ہوں
اب اپنے ہی لکھے لفظ سامنے
آتے ہیں تو میں ہار جاتی ہوں
اب تو میری سانس بھی مجھے
تکیف دیتی ہیں کہ میں کیسے
زندہ ہوں تیرے بغیر یہی سوچ کر
جب سانس لیتی تو میں ہار جاتی ہوں