نہ ہی قربتوں کا سوال ہے ، نہ ہی فاصلوں کا ملال ہے
توجہاں بھی ہے مرے پاس ہے یہ محبتوں کا کمال ہے
یہ جو شبنمی سا گلاب ہےیہ جو چاندنی کا شباب ہے
مجھے یوں لگے ہے تو روبرویہ ترا ہی یار جمال ہے
بڑی مدتوں کو گزار کر ترے شہر سے جو گزر ہوا
وہ ہی تذکرہ سنا چاند کا ، وہ ہی چاندنی کا سوال ہے
نہ جہان کو کبھی ہو سکی نہ خبر کبھی یہ مجھے ہوئی
مرے دل کا کب تو مکیں ہوا یہ محبتوں کا کمال ہے
تر ی یاد کی ردا اوڑھ کر ترے انتظار میں دل رہا
یہ ہی کل مرا یہ ہی آج ہے یہ ہی حال تھا یہ ہی حال ہے