کبھی جب دشتِ جاں میں خواہشوں کی آگ جلتی ہے
مرے اندر چھپی اِک موم کی عورت پگھلتی ہے
ہے تو آکاش میں دھرتی ، تجھے چھونا ہے نا ممکن
تجھے چھونے کی خواہش کیوں مرے دل میں مچلتی ہے
کچوکے مجھ کو دیتا ہے مرا احساسِ تنہائی
مرے دالان میں جب سردیوں کی شام ڈھلتی ہے
ہجومِ غم سے گھبرا کر نہ ہو مایوس خوشیوں سے
جہاں پلتا ہے غم دل میں،خوشی بھی ساتھ پلتی ہے
بس اتنی شرط ہے کہ اِک ذرا زرخیز ہو جائے
زمینِ فکر کی مٹی تبھی سونا اگلتی ہے
بڑا مشکل ہے رکھنا پیار میں جذبات پر قابو
تمنا جب مچل جائے بھلا پھر کب سنبھلتی ہے
کریں نہ ہم بھی کیوں دستِ دعا اپنے دراز آخر ؟
دعاوَں سے تو سنتے آئے ہیں قسمت بدلتی ہے
مجھے عذراؔ تری قربت کا موسم یاد آتا ہے
جواں شب قطرہ قطرہ شمع جیسی جب پگھلتی ہے
( ترمیم شدہ)