گھٹن ہے
اندھیرا ہے
تھک گئی ہیں
آنکھیں
راە تکتے تکتے
جانے کہاں؟
اجالا ہے
لگتا ہے سورج پر
پہرے ہیں
بادلوں نے
دیواروں نے
کرنوں کو روکا ہے
امید سحر میں جاگتی
جانے کتنی ہی
آنکھوں کو
بس
ایک کرن کا
انتظار ہے
جس سے بھلے کچھ
دیکھائی نہ دے
مگر اتنا تو
پتہ چلے
کہ جہاں سے
یہ آئی ہے
اس جانب
سویرا ہے