شاید تمہیں کسی نے، بتایا نہیں کبھی
میں نے اُدھار لیکر، چُکایا نہیں کبھی
خوابوں میں آکر روز دیتے ہیں گالیاں
حالانکہ وقت ہمارے ساتھ، بِتایا نہیں کبھی
کنجوس ہیں بَلا کے ہمارے سارے حبیب
چائے کا ایک کپ بھی، پِلایا نہیں کبھی
غزلیں سُنا رہے تھے ترنُم میں بار بار
اُن کو میرا خیال تک، آیا نہیں کبھی
چُپکے سے میرے پرس سے سِکّے نکالنا
مجھ کو ہُنر انہوں نے، سکھایا نہیں کبھی