بدلے اُن سب کو لینا یاد آئے
بعد برسوں کے سب کو یاد آئے
وہ ساری نیکیاں میری بھلا کر
وہ اک غلطی نہ میری بھول پائے
دلوں میں اس قدر کینہ تھا اُن کے
آخری پل میں بھی نہ جان پائے
نکھرے چہرے لباس تھے اُجلے
دِلوں کے مِیلُوں سے دھوکے کھائے
گرگٹوں کی طرح بدلتے ہوئے رنگ
ہر طرف لوگ آدمی کدھر جائے
کیا کچھ اپنے پر نہیں گزری
کیا کسی کا بگاڑ ہم پائے
کچھ نہیں اختیار میں اپنے
وقت خاموشی سے گزارا جائے