اب زندگی پہ ہو گئیں بھاری شرارتیں
تنہائیوں نے چھین لیں ساری شرارتیں
ہونٹوں کے گلستان پہ لالی نہ جب رہی
آنکھوں نے کھیل کھیل میں ہاری شرارتیں
کچھ تو گلے کا طوق ہیں یادوں کی راہ میں
کچھ آنسوؤں میں ہیں ابھی جاری شرارتیں
سینے سے آرزوؤں کے موسم گزر گئے
بس رہ گئی ہیں درد کی ماری شرارتیں
اڑنے نہ پائے دیکھنا آہ و فغاں کی دھول
ہوں جو کبھی گمان پہ طاری شرارتیں
ان دشمنوں میں عشق کا امکان اب کہاں
وشمہ غمِ جہان پہ واری شرارتیں