ہجر میں خون رلاتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
جب بھی ملتا ہے کوءی شخص بہاروں جیسا
مجھ کو تم کیسے بھلاتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
یاد آتی ہیں اکیلے میں تمھاری نیندیں
کس طرح خود کو سلاتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
مجھ سے بچھڑے ہو تو محبوب نظر ہو کس کے ؟
آج کل کس کو مناتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
شب کی تنہائی میں اکثر یہ خیال آتا ہے
اپنے دکھ کس کو سناتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
موسمِ گل میں نشہء ہجر بڑھ جاتا ہے
میرے سب ہوش اڑاتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
تم تو خوشیوں کی رفاقت کے لیے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟
شہر کے لوگ بھی واثق یہی کرتے ہیں سوال
اب کم کم نظر آتے ہو کہاں ہوتے ہو ؟