ادھورے خواب ہیں میرے ادھوری زندگانی میں
ہنساتی ہے رلاتی ہے مجھے تیری کہانی میں
غمِ دوراں کی حدت سے پگھل جاؤں نہ میں خاکی
مجھے سیلؐ رواں سے گوندھتی ہے میزبانی میں
حیاتِ سوز فکر آگہی جب دل جلاتی ہے
عروجِ لیل ڈستی ہے مجھے ہی قدردانی میں
مرے دل کو خزاں بنجر بنائے گی بھلا کیسے
روانی آب جو رکھتی ہے یارو مہربانی میں
چلی جاؤں گی کل پردیس پھر ،کیسی ملاقاتیں
مری ہستی، مری باتیں بھلا دو قدر دانی میں
امنگوں کے جلا رکھے دیے ہیں بامِ الفت پر
جواں جزبوں کے سب شعلے بجھا دو حق بیانی میں
زمانے کے مقابل کس طرح آ جائے اب وشمہ
چھپانے سے بھی اب چھپتی نہیں یہ بد گمانی میں