بہت بیزار لمحوں میں
تھَکی ہاری اُمیدیں
جب بھی لوٹ آتی ہیں
روایت کی حرارت سے
ہجر کی تشنگی بن کے
کسی دل کو جلاتی ہے
تو اُداسی چُپ نہیں رہتی
اُداسی بول پڑتی ہے
محبت کے صفینوں پر
صدائے آرزو دے کر
کسی ذات کے محور سے
بظاہر رُوبَرو ہو کر
جوابِ منتظر ہو کر
سماعت گُم سُم رہتی ہے
نہ کوئ آواز آتی ہے
تو اُداسی چُپ نہیں رہتی
اُداسی بول پڑتی ہے
منزل کی مسافت میں
کسی کے ہاتھ کو تھامے
اِک وسعت کے عالم میں
قدم جب خاک کو چھانے
حصولِ آرزو سے فقط
چند لمحیں ہی پہلے
اَنا کی برق آندھی میں
ہمسفر بچھڑ جائے
تو اُداسی چُپ نہیں رہتی
اُداسی بول پڑتی ہے