اٹھا تو سکتے ہیں فتنے بہت ہوس کے غلام
شہدوں سے نگاہیں ملاسکتے نہیں
میرے رفیق یہ رستا ہوا لہو تیرا
نشان سلسلہ سعی کامران بھی تو ہے
اگر کبھی تیری پلکوں پہ میری یاد کے ساتھ
تیرے خلوص کی گرمی کا نور پھیلا ہو
اگر کبھی تیرے دامن پہ بے بسی پہ مری
بہ شکل اشک تیرے دل کا درد مچلا ہو
تو میری خاک کے زروں میں بھی تپش بھر دے
تو میری خاک کے زروں سے آفتاب اگا
سیاہ رات کے سینے کو چیرنے کے لیے
امین سے تابہ فلک ان گنت شہاب اڑا
بھٹک نہ جائے اندھرے می کارواں اپنا
قدم قدم پہ نئے حوصلوں کی شمع جلے
ہر اک بام سے اونچا رہے نشان اپنا
اگر میں راہ عزیمت میں کام بھی آگیا
تو غم نہیں کہ یہ اصولوں کی معراج ہے
جو ارحمت حق سایہ نعیم بہشت
بہار ہے میرے حوصلے میری تگ و تاز
ابھی لہو میں حرارت ہے دل میں طوفان
ابھی جبیں پہ حیات آفرین چراغاں ہے