اٹھا تو سکتے ہیں فتنے بہت ہوس کے غلام
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, Karachi اٹھا تو سکتے ہیں فتنے بہت ہوس کے غلام
 شہدوں سے نگاہیں ملاسکتے نہیں
 میرے رفیق یہ رستا ہوا لہو تیرا
 نشان سلسلہ سعی کامران بھی تو ہے
 اگر کبھی تیری پلکوں پہ میری یاد کے ساتھ
 تیرے خلوص کی گرمی کا نور پھیلا ہو
 اگر کبھی تیرے دامن پہ بے بسی پہ مری
 بہ شکل اشک تیرے دل کا درد مچلا ہو
 تو میری خاک کے زروں میں بھی تپش بھر دے
 تو میری خاک کے زروں سے آفتاب اگا
 سیاہ رات کے سینے کو چیرنے کے لیے
 امین سے تابہ فلک ان گنت شہاب اڑا
 بھٹک نہ جائے اندھرے می کارواں اپنا
 قدم قدم پہ نئے حوصلوں کی شمع جلے
 ہر اک بام سے اونچا رہے نشان اپنا
 اگر میں راہ عزیمت میں کام بھی آگیا
 تو غم نہیں کہ یہ اصولوں کی معراج ہے
 جو ارحمت حق سایہ نعیم بہشت
 بہار ہے میرے حوصلے میری تگ و تاز
 ابھی لہو میں حرارت ہے دل میں طوفان
 ابھی جبیں پہ حیات آفرین چراغاں ہے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 