اک دم ویرانی سی اُجڑ گیا اشیانہ
چھین گئیں مُجھ سے خوشیان بھٹکتاہوں دیوانہ
ہرصبح میں خوشی سے تیرے وصال کو اتا
لاشعور میں یادیں تیری وہ چڑیوں کا چہچہانہ
بہتے ہیں میرے انسو وجود میں خون کا طوفان
ہائے معصوم تیری انداز وہ بیتاب تیرا ان
ویران اُن گلیوں میں ہیں نشان تیرے قدموں کے
ہے یاد تیرا انا آ کر وہ دل بہلان
افسوس وہ منظر راتوں کا تیرا وصال
پیار بھری مسکراہٹ وہ تیرا ہاتھ ملان
عُمرِ سیاہ کا تیرا دِلسوز پرستش بھی تیرا کروں
ملے مُجھ کو خُدا کا گھر یا فقیر کا اٰستانہ