نا سکون ملا
نا قرار ملا
میں جہاں بھی گیا
دشمنوں کا امبار ملا
کشتی تھی بہت خستہ
اور راستے میں طوفان ملا
جوانی کے دن تو
کٹ ہی گئے تھے جیسے تیسے
مگر بڑھاپے میں نجانے کیوں عذاب ملا
میں کب چلا تھا اور کہا آ پہنچا ہوں
راستے کو ناپا تو
سالوں کا حساب ملا
عزت بنانے کے لیے
کیا کچھ نہ کیا تھا میں نے
آج بے جرم خود کو
سلاخوں کے پیچھے دیکھا
تومجھ میں بھی
اک غریب مجبور انسان ملا