بچھی ہوئی ہے شہر میں روایتیں بھی خوب ہیں
ابلتے پانیوں میں ہوں عنایتیں بھی خوب ہیں
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیئے
پکارتی ہیں فرصتیں نزاکتیں بھی خوب ہیں
اب آئینے میں دیکھتی ہوں میں کہاں چلا گیا
اب آئینے سے کہہ دیا رکاوٹیں بھی خوب ہیں
میں سن رہی ہوں رنگ اور تتلیوں کی گفتگو
مرے شعور کی عطا ندامتیں بھی خوب ہیں
پھسل نہ جائے ذہن سے کسی خیال کی طرح
نہ پوچھ یہ عجیب سی سخاوتیں بھی خوب ہیں
صدائے دل عجیب ہے یہ کیا ہوا یہ کیا گئے
یہ کسکے غم کی آنچ سے سماعتیں بھی خوب ہیں
زرا سی دیر میں،محبتیں سبھی بدل گئیں
دیار دل کی رات میں مصافتیں بھی خوب ہیں
بے تابیوں کی گونج نے تو وشمہ مجھ سے کہہ دیا
یہ درد ہے جدائی ہے تو ر نجثیں بھی خوب ہیں