( کراچی کی رمشا اور ساری بے موت مرنے والی بہوؤں کے نام )۔
یہ کوہ قاف کی پریاں
یہ ہنستی مسکراتی لڑکیاں
ماں باپ کی دلاریاں
انگنا مہکاتی کلیاں
رنگوں سے سجی تتلیاں
پیا کے گھر بے مول رولتیں دلہنیا
کبھی چھت سے پاگل کہ کر گرا دی جاتیں
کبھی چولہے سے جلا دی جاتیں
نہ ہو یہ سب میسر
تو دن رات طعنوں سے چھلنی کی جاتیں
پھر بھی ماتھے پر شکن نہ لاتیں
بابل کے نام کی گالیاں سمیٹتیں
روز جیتیں اور مرتیں
نام میں گھر کی بہوئیں کہلاتیں
شب و روز خراج بھرتیں
نسل بڑھاتیں، چولہا جلاتیں
گھر بھر کی" بندی " بن جاتیں
نہ جانے پھر بھی کیوں غیر کہلاتیں؟