بے خزاں زندگی بہاروں کے
زد میں دل آئے غمگساروں کے
کیسے آغوش غیر میں جائیں
ہیں یہ حالات بے سہاروں کے
بعد مدت کے مسکرائے تھے
اڑ گئے چہرے خیر یاروں کے
جن کو کرتے رہے نظر انداز
ہم بھی مجرم ہیں ان پیاروں کے
پردئہ رہبری میں قزا قی
حوصلے دیکھو گے وہ چاروں کے
ساتھ رکھ ہم کو بھی غم دوراں
ہم بھی راہی ہے اب اشاروں کے
عشق کا شوق ہے تو اے وشمہ
سیکھو انداز جاں نثاروں کے