تری طرف سے نہ آیا کوئی بھی کام کا خط
میں روز پوچھتی پھرتی ہوں اپنے نام کا خط
نہ پوچھ کیسی رعونت سے وہ گزرتا ہے
اٹھا کے ایلچی بستی میں خاص و عام کا خط
یہ میرے سامنے نامہ بروں نے رکھ کے کہا
کوئی بھی اس میں نہیں تیرے شعلہ فام کا خط
خدا کرے کہ رقیبوں سے بچ کے آ جائے
کہ لکھ دیا ہے اسے اپنی صبح و شام کا خط
الگ بلا کے یہ کہنا مری طرف سے اسے
جواب جلدی سے بھیجو یہ ہے غلام کا خط
وہ پہلے پیار کی راہوں سے دور ہو جائے
میں اس کو لکھوں گی وشمہ تبھی سلام کا خط