چاندنی راتوں کو جاگ کر کے
کھڑکی سے چاند کو تاک کر کے
کھو جاتے تھے تُجھ کو یاد کر کے
پھر سو جاتے تھے اک فریاد کر کے
خدا اک دن مجھے اُس سے مِلا دینا
جسے چاہا تھا خود کو برباد کر کے
جو بچھڑا تو یوں دل چاق کر کے
سارے عہد وفاؤں کو راکھ کر کے
خدا اس کی ہر خطا اس کو معاف ہے
بس ایک بار آ جائے وہ دہلیز پار کر کے
رہا وعدہ کہ میں خود کو مٹا دوں گا
اس کے قدموں میں خود کو خاک کر کے
میرے چاند میرے آنسوں پر گواہ ہو جا
سمندر بھر کر دریا بہا ہے اسے یاد کر کے
بھولے سے بھی کبھی اُس نے احوال نہ لیے
پر تم نہ جاناچندا تاریک راتیں ویران کر کے