میٹھے پھل کے وعدے پر
صبر کا پہلو تھامے ہوئے
ظلم و ذیادتی کے باوجود
چپ کے روزے رکھے میں نے
ستم ظریف اپنوں کو
بندگی کے سجدے کرتی رہی
اپنی خوشیوں کی ننھی تھیلی سے
میں زکوٰۃ بھی دیتی رہی
پھر حاکم محرموں کے کعبے کے
ہزاروں طواف کرتی رہی
اپنی خواہش اڑان سے
میں کڑا جہاد کرتی رہی
قبل اس کے کہ سنگ تیرے
افق پار اڑ جاؤں
اے فرشتہء اجل، میری بات سن
مجھے دو گھڑی کی مہلت دے
جس کا وعدہ یہ
صدیوں سے کرتا آیا ہے
مجھے اس سماج سے آج
وہ تمغہ تو لینے دے