غم سے فرصت کبھی نہیں ملتی
ہم کو کوئی خوشی نہیں ملتی
زندہ رہنا ہے ، موت سے پہلے
کیوں ہمیں زندگی نہیں ملتی
مے کشو ! مے سے جی نہ بہلا ؤ
غم سے یوں بے خودی نہیں ملتی
مفلسی میں جوان چہروں کے
حسن کو دلکشی نہیں ملتی
اس کو پانے کے لاکھ جتن کیے
وہ دعاؤں سے بھی نہیں ملتی
موت کو ہم عزیز رکھتے ہیں
پر گلی ہی تری نہیں ملتی
دوستوں کے جلو میں تو زاہد
دشمنوں کی کمی نہیں ملتی