"خاموش داستان"
Poet: سعدیہ اعجاز By: Sadia Ijaz Hussain, Lahore,University of Educationتمہیں جو دیکھ رہا ہے وہ شخص اب سوال ہے
پہلے کی بات اور تھی اب کی بات جواب ہے
سنگ بھی موم ہو جاتے ہیں سنا ہوگا تم نے بھی کبھی؟
موم جو سنگ ہو جاۓ اُسکی داستاں خاموش ہے
اندھیری رات میں لِکھنے لگی ، رمز آشنائ کاغذ پر
سمجھ آئ ! کہانی جو دیکھتی تھی اُسکی ترجمانی ناسوت ہے
ہم آئینہ سے کرتے رہے دل کی گفتگو ملے جو خود سے
سمجھ آیا! آئینہ کا درد الگ تھا دل کی کلامی مغموم ہے
سورج نے جب دور سے اندھیرے کو روشن کیا
سمجھ آیا رات کی کالی چادر کی حسرت انمول ہے
تخیل سسکتے سسکتے مر گیا کل کسی محفل میں
جو الفاظ آج سرِ بازار رقصاں ہیں وہ درد و الم میں مصروف ہیں
لہو تڑپا ، قلم رنجیدہ ، الفاظ قاتل ، دل گھائل
یہ رنجیدہ غزل کل کی تھی، آج کی نظمیں بے خوف ہیں
ہر انساں انساں نہیں ،یہ کیا تم کو پتا نہیں؟
ہر روح روح سے آشنا ہوجاۓ نہ میاں نہ ایسا کبھی ہوا نہیں
وہ جو رہتا ہے نہ ہر دل میں وہی ہر دل کی دوا ہے
تم کو جو ہمنوا ملے وہ ہمنوا نہیں دلفریب ہے
وہ سرد راتوں میں آگ کی چنگاریوں سے ہمکالمی
وہ آنکھوں کا پانی ، وہ خوشبو جاودانی، وہ باد صبا کی مہک کی تجلیاں
وہ کہکشاں سوہانی ، وہ محبت کی کلیاں ، وہ درد کی کہانی
وہ خنجر سے لپٹے ہوۓ شہد کی بارش
وہ نازک سی پتیاں اور خار دار کہانی
کہیں تو چرچا رہا انجمن کا ، توکہیں ، تخلیہ سے شروع ہوئ کہانی
کہیں تصادم سے بھی ہوتے رہے حل جھگڑے
کہیں گرم ہواؤں میں ملتی رہی سرد بجلی
چلو چھوڑو جانے دو کچھ نہیں ہوا
چلو آو چاۓ لاو کچھ نہیں ہوا
چلو جاؤ اور جانے دو ، سن لو غزل
کہ دھرکتا دل ، طویل غزل ، حالت غمگین ، لڑکتا متن
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






