کلام تجھ سے نہیں خود سے گفتگو بھی نہیں
کسی بھی تیغ سے اب رشتہء گلو بھی نہیں
یہ کیسے ہجر کے دن ہیں کہ دل تو خون ہوا
جو رونا چاہا تو اب آنکھ میں لہو بھی نہیں
اسی کو کہتے ہیں شاید مقام وصل و فراق
کہ جس مقام پہ میں بھی نہیں ہوں تو بھی نہیں
خیال چارہ گری آج اس کا آیا ہے
کہ میرے زخم کو جب حاجتِ رفو بھی نہیں
ہماری بزم میں موضوعِ گفتگو تھا وہی
وہی نہیں ہے تو اب کوئی گفتگو بھی نہیں
یہ میرے شوقِ تجسس کو کیا ہوا الیاس
وہ سامنے بھی نہیں اس کی جستجو بھی نہیں