خلق کی بے خبری ہے کہ میری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے
یہ ظلم دیکھ کہ تو جان شاعری ہے مگر
میری غزل میں تیرا نام بھی ہے جرم سخن
میں تجھے کھو کہ بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
کویہ بتلاؤ تو اک عمر کا بچھڑا محبوب
اتفاقاً کہیں مل جائے تو کیا کہتے ہیں
جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
کل پشیماں ہو کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں